برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو
آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو
محسوس ہوا کہ بات کی ہے
اور بات بھی وہ جو دل نشیں ہو
امکان ہوا کہ وہم تھا سب
اظہار ہوا کہ تم یقیں ہو
اندازہ ہوا کہ رہ وہی ہے
امید بڑھی کہ تم وہیں ہو
اب تک مرے نام سے ہے نسبت
اب تک مرے شہر کے مکیں ہو
غزل
برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو
زہرا نگاہ