EN हिंदी
برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو | شیح شیری
barson hue tum kahin nahin ho

غزل

برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو

زہرا نگاہ

;

برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو
آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو

محسوس ہوا کہ بات کی ہے
اور بات بھی وہ جو دل نشیں ہو

امکان ہوا کہ وہم تھا سب
اظہار ہوا کہ تم یقیں ہو

اندازہ ہوا کہ رہ وہی ہے
امید بڑھی کہ تم وہیں ہو

اب تک مرے نام سے ہے نسبت
اب تک مرے شہر کے مکیں ہو