برسوں غم گیسو میں گرفتار تو رکھا
اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا
کچھ بے ادبی اور شب وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
اتنا بھی غنیمت ہے تری طرف سے ظالم
کھڑکی نہ رکھی روزن دیوار تو رکھا
وہ ذبح کرے یا نہ کرے غم نہیں اس کا
سر ہم نے تہہ خنجر خوں خوار تو رکھا
اس عشق کی ہمت کے میں صدقے ہوں کہ بیگمؔ
ہر وقت مجھے مرنے پہ تیار تو رکھا
غزل
برسوں غم گیسو میں گرفتار تو رکھا
بیگم لکھنوی