برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے
اندازۂ غم کیا ہو مگر دیدۂ تر سے
وہ چارہ گری تھی کہ عزیزوں کی دعائیں
لوٹ آئی ہیں ماتم کے لیے باب اثر سے
اک جبر مسلسل ہے عناصر کی کہانی
مختار کہے جاتے تھے جب نکلے تھے گھر سے
شاید کوئی منزل نہیں اس راہ میں پڑتی
واپس نہیں آتا کوئی یادوں کے سفر سے
کس عشرت رفتہ کی یہ وحشت اثری ہے
دل ڈوب گیا قرب شب وصل کے ڈر سے
غزل
برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے
شفقت تنویر مرزا