EN हिंदी
برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے | شیح شیری
barsi hain wo aankhen ki na baadal kabhi barse

غزل

برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے

شفقت تنویر مرزا

;

برسی ہیں وہ آنکھیں کہ نہ بادل کبھی برسے
اندازۂ غم کیا ہو مگر دیدۂ تر سے

وہ چارہ گری تھی کہ عزیزوں کی دعائیں
لوٹ آئی ہیں ماتم کے لیے باب اثر سے

اک جبر مسلسل ہے عناصر کی کہانی
مختار کہے جاتے تھے جب نکلے تھے گھر سے

شاید کوئی منزل نہیں اس راہ میں پڑتی
واپس نہیں آتا کوئی یادوں کے سفر سے

کس عشرت رفتہ کی یہ وحشت اثری ہے
دل ڈوب گیا قرب شب وصل کے ڈر سے