EN हिंदी
برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر | شیح شیری
barsat ka udhar hai dimagh aasman par

غزل

برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

شہود عالم آفاقی

;

برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر
چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر

مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا
تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر

کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجیئے
جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر

اب تک رمق حیات کی پیدا نہ ہو سکی
کیا میں لہو چھڑکتا رہا ہوں چٹان پر

دو چار ہاتھ اڑ کے زمیں پر جو آ گئے
تنقید کر رہے ہیں ہماری اڑان پر

جہل خرد نے توڑ دیں سب بندشیں شہودؔ
ناسخؔ کا اب اجارہ نہیں ہے زبان پر