برپا ہیں عجب شورشیں جذبات کے پیچھے
بے تاب ہے دل شوق ملاقات کے پیچھے
جن کو نہ سمجھ پائے ہم ارباب نظر بھی
سو راز ہیں اس شوخ کی ہر بات کے پیچھے
اس ٹھوس حقیقت سے تعرض نہیں ممکن
اک صبح تجلی ہے ہر اک رات کے پیچھے
ارباب وطن ہم کو ذرا یہ تو بتائیں
کن ذہنوں کی سازش ہے فسادات کے پیچھے
منظر ہے لہو رنگ سلگتی ہیں فضائیں
شعلوں کا وہ سیلاب ہے برسات کے پیچھے
ہم ان کو سمجھتے ہیں حزیںؔ کہہ نہیں سکتے
اسباب جو ہیں تلخئ حالات کے پیچھے
غزل
برپا ہیں عجب شورشیں جذبات کے پیچھے
جنید حزیں لاری