برہم زن شیرازۂ ایام ہمیں ہیں
اے درد محبت ترا انجام ہمیں ہیں
اس قافلۂ شوق میں یہ وہم ہے سب کو
آوارہ و سر گشتہ و ناکام ہمیں ہیں
ہوں گے کئی گردن زدنی اور بھی لیکن
اس شہر نگاراں میں تو بدنام ہمیں ہیں
ہم دھوپ میں تپتے تو پنپ جاتے مگر اب
دریوزہ گر مہر لب بام ہمیں ہیں
کیا آن تھی ناکامیٔ تدبیر سے پہلے
اب لائق فہمائش دشنام ہمیں ہیں
حق نقد مسرت کا اگر ہے تو ہمیں کو
کچھ نبض شناس غم و آلام ہمیں ہیں
جس تک کوئی کوئی ابھی پہنچا ہی نہیں ہے
وہ مشعل بے نور سر شام ہمیں ہیں
انکار ہی سر چشمۂ ایمان و یقیں ہے
اب روز جزا لائق انعام ہمیں ہیں
کلیوں سے دم صبح جو زیدیؔ نے سنا تھا
فطرت کا وہ نا گفتہ سا پیغام ہمیں ہیں
غزل
برہم زن شیرازۂ ایام ہمیں ہیں
علی جواد زیدی