برگزیدہ ہیں ہواؤں کے اثر سے ہم بھی
دیکھتے ہیں تجھے دنیا کی نظر سے ہم بھی
اپنے رستے میں بڑے لوگ تھے رفتار شکن
اور کچھ دیر میں نکلے ذرا گھر سے ہم بھی
رات اس نے بھی کسی لمحے کو محسوس کیا
لوٹ آئے کسی بے وقت سفر سے ہم بھی
سب کو حیرت زدہ کرتی ہے یہاں بے خبری
چونک پڑتے تھے یوں ہی پہلے خبر سے ہم بھی
زرد چہرے کو بڑے شوق سے سب دیکھتے ہیں
ٹوٹنے والے ہیں سرسبز شجر سے ہم بھی
کون سا غیر خدا جانے یہاں ہے ایسا
برقعہ اوڑھے ہوئے آئے تھے ادھر سے ہم بھی
غزل
برگزیدہ ہیں ہواؤں کے اثر سے ہم بھی
ظہیرؔ رحمتی