EN हिंदी
برگ گل شاخ ہجر کا کر دے | شیح شیری
barg-e-gul shaKH-e-hijr ka kar de

غزل

برگ گل شاخ ہجر کا کر دے

ایوب خاور

;

برگ گل شاخ ہجر کا کر دے
اے خدا اب مجھے ہرا کر دے

ہر پلک ہو نم آشنا مجھ سے
میرا لہجہ بہار سا کر دے

مجھ کو روشن مرے بیان میں کر
خامشی کو بھی آئنا کر دے

بیٹھ جاؤں نہ تھک کے مثل غبار
دشت میں صورت صبا کر دے

میری تکمیل حرف و صوت میں ہو
مجھے پابند التجا کر دے

کون دستک پہ کان دھرتا ہے
تو مرے ہاتھ دل کشا کر دے

اے جمال دیار کشف و کمال
موجۂ رنگ کو نوا کر دے