EN हिंदी
برف‌ زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے | شیح شیری
barf-zar-e-jaan ki tah mein kholte pani ka hai

غزل

برف‌ زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے

نصر غزالی

;

برف‌ زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے
جو بھی قصہ ہے لہو کی شعلہ سامانی کا ہے

آسماں سے روشنی اتری بھی دھندلا بھی چکی
نام روشن ہے تو بس ظلمت کی تابانی کا ہے

ریگزار لب کہ ہر سو اگ رہی ہے تشنگی
آنکھ میں منظر اچھلتے کودتے پانی کا ہے

بے سبب ہرگز نہیں دست کرم کم کم ادھر
اس کو اندازہ ہماری تنگ دامانی کا ہے

شہر ہو یا ہو بیاباں گھر ہو یا کوئی کھنڈر
سلسلہ چاروں طرف غول بیابانی کا ہے

موڑ پر پہنچے تو دیکھو گے کہ ہر منزل ہے سہل
بس یہی اک راستہ ہے جو پریشانی کا ہے