برف زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے
جو بھی قصہ ہے لہو کی شعلہ سامانی کا ہے
آسماں سے روشنی اتری بھی دھندلا بھی چکی
نام روشن ہے تو بس ظلمت کی تابانی کا ہے
ریگزار لب کہ ہر سو اگ رہی ہے تشنگی
آنکھ میں منظر اچھلتے کودتے پانی کا ہے
بے سبب ہرگز نہیں دست کرم کم کم ادھر
اس کو اندازہ ہماری تنگ دامانی کا ہے
شہر ہو یا ہو بیاباں گھر ہو یا کوئی کھنڈر
سلسلہ چاروں طرف غول بیابانی کا ہے
موڑ پر پہنچے تو دیکھو گے کہ ہر منزل ہے سہل
بس یہی اک راستہ ہے جو پریشانی کا ہے
غزل
برف زار جاں کی تہہ میں کھولتے پانی کا ہے
نصر غزالی