برف سے لڑتا تھا میرے پاس پانی کیوں نہیں
اب سوال اٹھتا ہے دریا میں روانی کیوں نہیں
داستاں پڑھ کر مری اخبار میں روتا ہے وہ
آ کے سنتا دکھ مرا میری زبانی کیوں نہیں
میں ترا بے خواب بچہ ماں بتا میرے لیے
کوئی لوری کیوں نہیں کوئی کہانی کیوں نہیں
ڈوبنا چاہوں گا تو خشکی میں ہو جاؤں گا غرق
میں نہ پوچھوں گا کبھی دریا میں پانی کیوں نہیں
میرا قد اونچا ہے لیکن با ہنر وہ بھی تو ہیں
شہر کے بولوں پہ تیری مہربانی کیوں نہیں
پاس اس کے پیسہ بنگلے گاڑیاں شہرت بھی ہے
اشکؔ جی وہ شخص پھر بھی خاندانی کیوں نہیں
غزل
برف سے لڑتا تھا میرے پاس پانی کیوں نہیں
پروین کمار اشک