برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا
آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا
تحریک جب جمود کے سانچے میں ڈھل گئی
ایسا لگا کہ خون رگوں میں ٹھہر گیا
وہ شخص جس نے عمر گزاری تھی دھوپ میں
ٹھنڈک کی جائیداد مرے نام کر گیا
میں اس کو ہم خیال سمجھتا رہا مگر
سینے میں اختلاف کا چاقو اتر گیا
پر ہول واقعات کے گنبد میں ہیں اسیر
ہم کیا کریں ہماری دعا کا اثرؔ گیا

غزل
برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا
ساجد اثر