برستے روز پتھر دیکھتا ہوں
یہی رونا میں گھر گھر دیکھتا ہوں
نکل کر خود سے باہر دیکھتا ہوں
سمندر اپنے اندر دیکھتا ہوں
اپج دگنا ہے تجھ سے اب کے میرا
میں تیرے ساتھ مل کر دیکھتا ہوں
نظر آتا ہے منظر اور کوئی
جگہ اپنی سے اٹھ کر دیکھتا ہوں
حساب اپنا یہاں سب دے رہے ہیں
بپا ہر سمت محشر دیکھتا ہوں
جسے تم لوگ بہتر کہہ رہے ہو
وہی ابتر سے ابتر دیکھتا ہوں
الگ انداز میرا زاویہ بھی
تری دنیا سے ہٹ کر دیکھتا ہوں
غنی ہے اصل اشیا اور ہی کچھ
تمہارے خیر کو شر دیکھتا ہوں

غزل
برستے روز پتھر دیکھتا ہوں
غنی غیور