EN हिंदी
برہنگی کا مداوا کوئی لباس نہ تھا | شیح شیری
barahnagi ka mudawa koi libas na tha

غزل

برہنگی کا مداوا کوئی لباس نہ تھا

اسرار زیدی

;

برہنگی کا مداوا کوئی لباس نہ تھا
خود اپنے زہر کا تریاق میرے پاس نہ تھا

سلگ رہا ہوں خود اپنی ہی آگ میں کب سے
یہ مشغلہ تو مرے درد کی اساس نہ تھا

تری نوازش پیہم کے نقش دل میں رہے
میں بے خبر سہی پر ایسا نا سپاس نہ تھا

ہر ایک شعر تھا میرا مرے خیال کا عکس
کوئی کتاب نہ تھی کوئی اقتباس نہ تھا

بکھر گئے تھے سو خود کو سمیٹ بھی لیتے
کہ اس یقین میں شامل مرا قیاس نہ تھا