EN हिंदी
بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا | شیح شیری
bar-sar-e-lutf aaj chashm-e-dil-ruba thi main na tha

غزل

بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا

سید یوسف علی خاں ناظم

;

بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا
ڈھونڈھتی مجھ کو نگاہ آشنا تھی میں نہ تھا

یار کو مد نظر مشق جفا تھی میں نہ تھا
وائے قسمت کل وہاں میری قضا تھی میں نہ تھا

میرے ہوتے بے تکلف ہاتھا پائی غیر سے
قابل اس رتبے کے ظالم کیا حنا تھی میں نہ تھا

آہ میری نارسا فریاد میری بے اثر
نیند اڑا دی جس نے تیری وہ ہوا تھی میں نہ تھا

یاد فرمانا تھا مجھ کو بھی دم گلگشت باغ
ساتھ چلنے کو جلو میں کیا صبا تھی میں نہ تھا

اے پری پابوس سے محروم کیوں رکھا مجھے
خوں گرفتہ اس چمن میں کیا حنا تھی میں نہ تھا

وائے قسمت ڈھونڈتی تھی کل مجھے شمشیر یار
رحمت عام اس کی سر گرم عطا تھی میں نہ تھا

جام مینا بادہ ساقی چنگ دف بربط رباب
نہر گلشن چاندنی سبزہ فضا تھی میں نہ تھا

اپنے کوچے میں کیا ہوتا مجھے جاروب کش
صاحب اس خدمت کے قابل کیا صبا تھی میں نہ تھا

توڑ کر افلاک جو پہنچی سر عرش بریں
قدسیو وہ میری آہ نارسا تھی میں نہ تھا

عمر رفتہ تو ہی مجھ واماندہ کا سن لے پیام
قافلے والوں سے کہہ دینا کہ ساتھی میں نہ تھا

صبح وصل آزردگی مجھ سے ہی کس تقصیر پر
وجہ ناراضی تو میری التجا تھی میں نہ تھا

جب گلہ آشوب پردازوں کا اس بت سے کیا
بول اٹھا شوخی سے چشم فتنہ زا تھی میں نہ تھا

جام مینا بادہ ساقی تھا یہ سب ناظمؔ وہاں
پر مری قسمت کہ خالی میری جا تھی میں نہ تھا