بنی تھی دل پہ کچھ ایسی کی اضطراب نہ تھا
غشی کو آپ نے سمجھا تھا خواب خواب نہ تھا
یہ حسن ظن ہے کہ بیخودؔ کبھی خراب نہ تھا
کسر تھی اتنی کہ آلودۂ شراب نہ تھا
ہماری آنکھ سے تم دیکھتے تو کھل جاتا
کہ آئینے میں بھی اس شکل کا جواب نہ تھا
ہزاروں اس دل بے آرزو نے ڈھائے ستم
بھلے کو اور مرے ساتھ کچھ عذاب نہ تھا
مجھے یہ رشک کہ دشمن کا ذکر کیوں آئے
انہیں یہ ناز مری بات کا جواب نہ تھا
یہ بت سمجھتے تھے بیخودؔ کو بار خاطر کیوں
کسی کے دل میں تو وہ خانماں خراب نہ تھا
غزل
بنی تھی دل پہ کچھ ایسی کی اضطراب نہ تھا
بیخود دہلوی