بندہ پتلا خطا کا ہوتا ہے
مسئلہ تو انا کا ہوتا ہے
وہی مستول ڈھیلا کرتے ہیں
جن پہ تکیہ بلا کا ہوتا ہے
ہم یونہی خواب بنتے رہتے ہیں
کھیل سارا قضا کا ہوتا ہے
سوختہ تن کی راکھ پر شاید
ظلم باقی ہوا کا ہوتا ہے
جس کو شبنم ملے نہ حصے کی
پھول وہ ادھ کھلا سا ہوتا ہے

غزل
بندہ پتلا خطا کا ہوتا ہے
ابن امید