بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں
خواہش ننگ نہیں کچھ ہوس نام نہیں
مذہب عشق کا یہ ڈھنگ نرالا دیکھا
کچھ وہاں تذکرۂ کفر اور اسلام نہیں
عشق کو جانتا ہوں دین و ایمان اپنا
غیر معشوق پرستی مجھے کچھ کام نہیں
کعبۂ جاں ہے مرا کوچۂ جاناں یارو
سجدۂ دیر و حرم سے مجھے کچھ کام نہیں
صید مرغ دل عاشق لیے اے دلبر
خال ہے دانہ اور یہ زلف کم از دام نہیں
درد دل نے ہمیں کیا کیا ہے چکھائی لذت
اس لیے دل کو مرے خواہش آرام نہیں
مذہب عشق میں آ کر کے ہمیں اے آثمؔ
شاہ خادم کے سوا اور سے کچھ کام نہیں
غزل
بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں
شاہ آثم