EN हिंदी
بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ | شیح شیری
band kar le khiDkiyan yun raat ko bahar na dekh

غزل

بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ

شمیم حنفی

;

بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ

کیا پتہ زنجیر میں ڈھل جائے بستر کی شکن
یہ سفر کا وقت ہے اب جانب بستر نہ دیکھ

خاک و خوں میراث تیری خاک و خوں تیرا نصیب
اس زیاں خانے میں اپنے پاؤں کا چکر نہ دیکھ

تو نے جو پرچھائیاں چھوڑیں وہ صحرا بن گئیں
اے نگار وقت اب پیچھے کبھی مڑ کر نہ دیکھ