بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
ڈوبتی آنکھوں سے اپنے شہر کا منظر نہ دیکھ
کیا پتہ زنجیر میں ڈھل جائے بستر کی شکن
یہ سفر کا وقت ہے اب جانب بستر نہ دیکھ
خاک و خوں میراث تیری خاک و خوں تیرا نصیب
اس زیاں خانے میں اپنے پاؤں کا چکر نہ دیکھ
تو نے جو پرچھائیاں چھوڑیں وہ صحرا بن گئیں
اے نگار وقت اب پیچھے کبھی مڑ کر نہ دیکھ
غزل
بند کر لے کھڑکیاں یوں رات کو باہر نہ دیکھ
شمیم حنفی