بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں
برگد نیچے ندی کنارے بیٹھ کہانی بولیں
دھیرے دھیرے خود کو نکالیں اس بندھن جکڑن سے
سنگ کسی آوارہ منش کے ہولے ہولے ہو لیں
فکر کی کس سرشار ڈگر پر شام ڈھلے جی چاہا
جھیل میں ٹھہرے اپنے عکس کو چومیں ہونٹ بھگو لیں
ہاتھ لگا بیٹھے تو جیون بھر مقروض رہیں گے
دام نہ پوچھیں درد کے صاحب پہلے جیب ٹٹولیں
نوشادر گندھک کی زباں میں شعر کہیں اس یگ میں
سچ کے نیلے زہر کو لہجے کے تیزاب میں گھولیں
اپنی نظر کے باٹ نہ رکھیں سازؔ ہم اک پلڑے میں
بوجھل تنقیدوں سے کیوں اپنے اظہار کو تولیں
غزل
بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں
عبد الاحد ساز