بند آنکھوں سے وہ منظر دیکھوں
ریگ صحرا کو سمندر دیکھوں
کیا گزرتی ہے مرے بعد اس پر
آج میں اس سے بچھڑ کر دیکھوں
شہر کا شہر ہوا پتھر کا
میں نے چاہا تھا کہ مڑ کر دیکھوں
خوف تنہائی گھٹن سناٹا
کیا نہیں مجھ میں جو باہر دیکھوں
ہے ہر اک شخص کا دل پتھر کا
میں جدھر جاؤں یہ پتھر دیکھوں
کچھ تو اندازۂ طوفاں ہو امیرؔ
ناؤ کاغذ کی چلا کر دیکھوں
غزل
بند آنکھوں سے وہ منظر دیکھوں
امیر قزلباش