EN हिंदी
بند آنکھوں سے وہ منظر دیکھوں | شیح شیری
band aankhon se wo manzar dekhun

غزل

بند آنکھوں سے وہ منظر دیکھوں

امیر قزلباش

;

بند آنکھوں سے وہ منظر دیکھوں
ریگ صحرا کو سمندر دیکھوں

کیا گزرتی ہے مرے بعد اس پر
آج میں اس سے بچھڑ کر دیکھوں

شہر کا شہر ہوا پتھر کا
میں نے چاہا تھا کہ مڑ کر دیکھوں

خوف تنہائی گھٹن سناٹا
کیا نہیں مجھ میں جو باہر دیکھوں

ہے ہر اک شخص کا دل پتھر کا
میں جدھر جاؤں یہ پتھر دیکھوں

کچھ تو اندازۂ طوفاں ہو امیرؔ
ناؤ کاغذ کی چلا کر دیکھوں