بنائے ذہن پرندوں کی یہ قطار مرا
اسی نظارے سے کچھ کم ہو انتشار مرا
جو میں بھی آگ میں ہجرت کا تجربہ کرتا
مہاجروں ہی میں ہوتا وہاں شمار مرا
پھر اپنی آنکھیں سجائے ہوئے میں گھر آیا
سفر اک اور رہا اب کے خوش گوار مرا
تمام عمر تو خوابوں میں کٹ نہیں سکتی
بہت دنوں تو کیا اس نے انتظار مرا
یہ میرا شہر مری خامیوں سے واقف ہے
یہاں کسی کو نہ آئے گا اعتبار مرا
یہ لوگ صرف مری زندگی کے دشمن ہیں
مجسمہ یہ بنائیں گے شاندار مرا
مری بساط سے اظہرؔ بہت زیادہ تھیں
توقعات جو رکھتا تھا مجھ سے یار مرا
غزل
بنائے ذہن پرندوں کی یہ قطار مرا
اظہر عنایتی