بنا رہا تھا کوئی آب و خاک سے کچھ اور
اٹھا لیا پھر اچانک ہی چاک سے کچھ اور
جلا کے بیٹھ گیا میں وہ آخری تصویر
تو نقش ابھرنے لگے اس کی راکھ سے کچھ اور
بس اپنے آپ سے کچھ دیر ہم کلام رہو
نہیں ہے فائدہ ہجر و فراق سے کچھ اور
ہماری فال ہمارے ہی ہاتھ سے نکلی
بنا ہے زائچہ پر اتفاق سے کچھ اور
وہی ستارہ نما اک چراغ ہے آزرؔ
مرا خیال تھا نکلے گا طاق سے کچھ اور
غزل
بنا رہا تھا کوئی آب و خاک سے کچھ اور
دلاور علی آزر