EN हिंदी
بنا کے تلخ حقائق سے پر نکلتی ہے | شیح شیری
bana ke talKH haqaeq se par nikalti hai

غزل

بنا کے تلخ حقائق سے پر نکلتی ہے

راحت سرحدی

;

بنا کے تلخ حقائق سے پر نکلتی ہے
چٹان میں بھی اگر ہو خبر نکلتی ہے

مری طرف سے اجازت ہے دیکھ لو خود ہی
کہیں جدائی کی صورت اگر نکلتی ہے

وہ تیرگی ہے کہ خود راہ ڈھونڈنے کے لیے
چراغ ہاتھ میں لے کر سحر نکلتی ہے

غرور اتنا بھی کیا اپنی شان شوکت پر
یہ خوش گمانی تو کٹوا کے سر نکلتی ہے

مرے خیال میں تسخیر شش جہت کے لیے
تری گلی سے کہیں رہ گزر نکلتی ہے

نہ رات سنتی ہے راحتؔ فغان صید یہاں
نہ دھوپ دیکھ کے ظرف شجر نکلتی ہے