EN हिंदी
بنا حسن تکلم حسن ظن آہستہ آہستہ | شیح شیری
bana husn-e-takallum husn-e-zan aahista aahista

غزل

بنا حسن تکلم حسن ظن آہستہ آہستہ

شاذ تمکنت

;

بنا حسن تکلم حسن ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کھلا اک کم سخن آہستہ آہستہ

مسافر راہ میں ہے شام گہری ہوتی جاتی ہے
سلگتا ہے تری یادوں کا بن آہستہ آہستہ

دھواں دل سے اٹھے چہرے تک آئے نور ہو جائے
بڑی مشکل سے آتا ہے یہ فن آہستہ آہستہ

ابھی تو سنگ طفلاں کا ہدف بننا ہے کوچوں میں
کہ راس آتا ہے یہ دیوانہ پن آہستہ آہستہ

ابھی تو امتحان آبلہ پا ہے بیاباں میں
بنیں گے کنج گل دشت و دمن آہستہ آہستہ

ابھی کیوں کر کہوں زیر نقاب سرمگیں کیا ہے
بدلتا ہے زمانے کا چلن آہستہ آہستہ

میں اہل انجمن کی خلوت دل کا مغنی ہوں
مجھے پہچان لے گی انجمن آہستہ آہستہ

دل ہر سنگ گویا شمع محراب تمنا ہے
اثر کرتی ہے ضرب کوہکن آہستہ آہستہ

کسی کافر کی شوخی نے کہلوائی غزل مجھ سے
کھلے گا شاذؔ اب رنگ سخن آہستہ آہستہ