بنا دے اور بھی کچھ دور کی صدا مجھ کو
یہ جتنے فاصلے ممکن ہیں سب دکھا مجھ کو
ہر ایک چہرے کو پہچاننے کی کوشش نے
ہر ایک چہرے کی الجھن بنا دیا مجھ کو
تھکا تھکا سا تسلسل بنا کے دریا کا
یہ پھیلتا ہوا صحرا نہ اب بنا مجھ کو
میں سلسلہ ہوں صداؤں کے ٹوٹ جانے کا
تو سوچ کر ہی دوبارہ صدا بنا مجھ کو
تو میری بات ہے تو گونج جا مرے اندر
میں تیری چپ ہوں تو پھر توڑ کر دکھا مجھ کو
میں سن رہا ہوں ہر ایک چوٹ میں صدا اپنی
رکے نہ ہاتھ ترا توڑتا ہی جا مجھ کو
میرا خیال ہے گھر کے بہت قریب ہوں میں
ہر ایک لمحہ نہ یوں ورنہ دیکھتا مجھ کو
یہ لوگ کیا ہیں کسی کا کوئی وجود بھی ہے
یہ آر پار نظر آ رہا ہے کیا مجھ کو
عجب تھکن ہوں کسی سے نہ کچھ بھی کہنے کی
عجب طرح یہ پڑا خود سے واسطہ مجھ کو
میں اپنے دھیان سے خود ہی اتر گیا تھا تلخ
سبھی غلط ہیں کسی نے نہیں سنا مجھ کو
غزل
بنا دے اور بھی کچھ دور کی صدا مجھ کو
منموہن تلخ