بنا بنا کے عکس خد و خال رکھ دیئے گئے
کہ آئنے ہٹا دئیے خیال رکھ دیئے گئے
جو بات قتل کی گئی وہی تو ایک بات تھی
سخن سرائے وقت میں ملال رکھ دیئے گئے
کوئی نہ خود کو پا سکے یہ اور بات ہے مگر
کمی کجی کے رنگ میں کمال رکھ دیئے گئے
کبھی جو ایک شہر تھا قفس بنا دیا گیا
جہاں بھی رکھے جا سکے تھے جال رکھ دئیے گئے
درخت کاٹ کاٹ کر کشادگی تو کی گئی
سروں پہ جلتی دھوپ کے وبال رکھ دئیے گئے
کبھی جو حق دیا گیا تو اس طرح دیا گیا
کہ فیصلے کے درمیان سال رکھ دیئے گئے
دلوں کو چھو گئی تھی جو وہ تازگی نہیں رہی
بھلے سے اب سخن میں سو کمال رکھ دیئے گئے
محبتوں میں چاہیئے تھی پختگی سو اس لئے
فراق رکھ دیئے گئے وصال رکھ دیئے گئے
وہ شہر بے مثال تھا وہ شہر لا زوال تھا
پھر اس کی اینٹ اینٹ میں زوال رکھ دئیے گئے

غزل
بنا بنا کے عکس خد و خال رکھ دیئے گئے
خالد محمود ذکی