بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں
کس کو بٹھائیں تخت پر گرد و غبار بھی نہیں
برگ و گل و طیور سب شاخوں کی سمت اڑ گئے
قصر جہاں پناہ میں نقش و نگار بھی نہیں
سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں
اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں
میلے لباس کی دعا پہنچے شبیہ شاخ تک
شاہوں کے پائیں باغ میں ایسا مزار بھی نہیں
کل ہمہ تن جمال تھے آئنے حسب حال تھے
سنتے ہیں اب وہ خال و خد عکس کے پار بھی نہیں
غزل
بن سے فصیل شہر تک کوئی سوار بھی نہیں
غلام محمد قاصر