بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے
سر جھکا کر پھول کرتے ہیں دعا میرے لیے
تم نہ مرجھاؤ تو کلیو کل بتا دینا اسے
کچھ سمجھ کر کھوئی کھوئی ہے صبا میرے لیے
میں تو بس ان کے ہی رنگ و نور کا عکاس تھا
مضطرب ہے کیوں ستاروں کی ضیا میرے لیے
میری ہی خاطر تھا عہد ترک آرائش مگر
پھر وہ آئے ہیں کنار آئنہ میرے لیے
جگمگا اٹھتی ہے دل میں اک مقدس روشنی
جب نہیں ہوتا کہیں بھی آسرا میرے لیے
سوچتا ہوں پھر اٹھا لوں بربط کہنہ سلامؔ
منتظر ہے شعر و نغمہ کا خدا میرے لیے
غزل
بن گئی ہے موت کتنی خوش ادا میرے لیے
سلام ؔمچھلی شہری