بم پھوٹنے لگیں کہ سمندر اچھل پڑے
کب زندگی پہ کون بونڈر اچھل پڑے
دشمن مری شکست پہ منہ کھول کر ہنسے
اور دوست اپنے جسم کے اندر اچھل پڑے
گہرائیاں سمٹ کے بکھرنے لگیں تمام
اک چاند کیا دکھا کہ سمندر اچھل پڑے
مت چھیڑئیے ہمارے چراغ خلوص کو
شاید کوئی شرار ہی منہ پر اچھل پڑے
گھوڑوں کی بے لگام چھلانگوں کو دیکھ کر
بچھڑے کسی نکیل کے دم پر اچھل پڑے
گہری نہیں تھی اور مچلتی تھی بے سبب
ایسی ندی ملی تو شناور اچھل پڑے
یوں منہ نہ پھیرنا کہ سبھی دوست ہیں یہاں
کب اور کہاں سے پیٹھ پہ خنجر اچھل پڑے
غزل
بم پھوٹنے لگیں کہ سمندر اچھل پڑے
مینک اوستھی