بلوائیوں کا جس پہ یہاں کچھ اثر نہ تھا
وہ گھر امیر شہر کا تھا میرا گھر نہ تھا
تہذیب و علم و فن کی ترقی کی راہ میں
میرے علاوہ اور کوئی راہبر نہ تھا
میں بھی کہیں کہیں رہا رعنائیوں سے دور
تو بھی کہیں کہیں پہ شریک سفر نہ تھا
تازہ خبر میں ہم نے پڑھا ہے یہ دوستو
بارش تھی پتھروں کی مگر زخم سر نہ تھا
سمجھا تھا رہنمائی کرے گا مری مگر
سورج بھی تیرگی میں شریک سفر نہ تھا
نصرتؔ نہ جانے کیوں اسے آیا نہ کچھ خیال
حالانکہ میرے حال سے وہ بے خبر نہ تھا

غزل
بلوائیوں کا جس پہ یہاں کچھ اثر نہ تھا
نصرت صدیقی