بلائیں لیجئے اب بارشوں کی
جنہوں نے لاج رکھی موسموں کی
بدن کی زردیاں مٹنے لگی ہیں
ضرورت ہے غموں کی آندھیوں کی
اگر گھٹتی رہیں روشن لکیریں
سیاہی پھیل جائے گی شبوں کی
محبت کار فرما ہو رہی ہے
ملیں گی لذتیں اب رنجشوں کی
اکیلی ذات گھبرانے لگی ہے
طلب بڑھنے لگی ہے ساتھیوں کی
لباس جاں شکستہ ہو گیا ہے
عنایت ہے قریبی دوستوں کی
غزل
بلائیں لیجئے اب بارشوں کی
نیاز حسین لکھویرا