EN हिंदी
بلا سے ہو شام کی سیاہی کہیں تو منزل مری ملے گی | شیح شیری
bala se ho sham ki siyahi kahin to manzil meri milegi

غزل

بلا سے ہو شام کی سیاہی کہیں تو منزل مری ملے گی

قمر جلالوی

;

بلا سے ہو شام کی سیاہی کہیں تو منزل مری ملے گی
ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی

ہجوم محشر میں کیسا ملنا نظر فریبی بڑی ملے گی
کسی سے صورت تری ملے گی کسی سے صورت مری ملے گی

تمہاری فرقت میں تنگ آ کر یہ مرنے والوں کا فیصلہ ہے
قضا سے جو ہمکنار ہوگا اسے نئی زندگی ملے گی

قفس سے جب چھٹ کے جائیں گے ہم تو سب ملیں گے بجز نشیمن
چمن کا ایک ایک گل ملے گا چمن کی اک اک کلی ملے گی

تمہاری فرقت میں کیا ملے گا تمہارے ملنے سے کیا ملے گا
قمرؔ کے ہوں گے ہزارہا غم رقیب کو اک خوشی ملے گی