بلا سے برق نے پھونکا جو آشیانے کو
چمن میں کیا ہے پتہ چل گیا زمانے کو
کسی کا در جو ملا تو کسی کے ہو کے رہے
کسی کے واسطے ٹھکرا دیا زمانے کو
عروس زیست انہیں کو گلے لگاتی ہے
جو دار پر بھی سناتے ہیں حق زمانے کو
خلوص دل نہ ہو شامل تو بندگی کیا ہے
زمانہ کھیل سمجھتا ہے سر جھکانے کو
ابھر رہی تھی جہاں سے حیات نو کی کرن
بلا رہا تھا اسی سمت میں زمانے کو
بدل سکو تو بدل دو حیات کے تیور
لب حیات ترستے ہیں مسکرانے کو
اٹھاؤں برق کے احسان کس لئے فیضیؔ
میں خود ہی آگ لگا دوں نہ آشیانے کو
غزل
بلا سے برق نے پھونکا جو آشیانے کو
فیضی نظام پوری