بلا کی دھوپ تھی ساری فضا دہکتی رہی
مگر وفا کی کلی شاخ پر چٹکتی رہی
بچھڑتے وقت میں اس کو دلاسہ دیتا رہا
وہ بے زباں تھی مجھے بے بسی سے تکتی رہی
اسے خبر تھی کہ ہم اہل دشت پیاسے ہیں
جبھی تو موج کناروں سے سر پٹکتی رہی
الم نصیب تو رو رو کے سو گئے آخر
مگر ملول ہوا رات بھر سسکتی رہی
دم جدائی وہ مریم صلیب کی مانند
مرے گلے سے بڑی دیر تک لٹکتی رہی
میں ایسی راہ پہ نکلا کہ میری خوش بختی
تمام عمر مری کھوج میں بھٹکتی رہی
غزل
بلا کی دھوپ تھی ساری فضا دہکتی رہی
مقبول عامر