بلا کی دھوپ میں ایسے بھی جسم جلتا رہا
بدن کا سایہ جو اپنے سروں سے ڈھلتا رہا
ڈھلی نہ شام الم جب تلک سحر نہ ہوئی
بجھے چراغ کی لو سے دھواں نکلتا رہا
ملی نہ منزل مقصود اس لیے بھی مجھے
میں ہر قدم پہ نیا راستہ بدلتا رہا
جہاں بھی آنکھ چرائی سفر میں سورج نے
کوئی ستارہ مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
بس ایک عمر گنوا کر قبولیت کی نبیلؔ
تمام عمر میں ہاتھوں کو اپنے ملتا رہا
غزل
بلا کی دھوپ میں ایسے بھی جسم جلتا رہا
نبیل احمد نبیل