بجائے گل مجھے تحفہ دیا ببولوں کا
میں منحرف تو نہیں تھا ترے اصولوں کا
ازالہ کیسے کرے گا وہ اپنی بھولوں کا
کہ جس کے خون میں نشہ نہیں اصولوں کا
نفس کا قرض چکانا بھی کوئی کھیل نہیں
وہ جان جائے گا انجام اپنی بھولوں کا
نئی تلاش کے یہ میر کارواں ہوں گے
بناتے جاؤ یوں ہی سلسلہ بگولوں کا
یہ آڑی ترچھی لکیریں بدل نہیں سکتیں
ہزار واسطہ دیتے رہو اصولوں کا
تمام فلسفۂ کائنات کھل جاتے
کہاں سے ٹوٹ گیا سلسلہ نزولوں کا
انہیں سے مجھ کو ملا عزم زندگی اجملؔ
میں جانتا ہوں کہ کیا ہے مقام پھولوں کا
غزل
بجائے گل مجھے تحفہ دیا ببولوں کا
کبیر اجمل