بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے
یہیں سے پر لے کے محو پرواز ہم ہوئے تھے
سخن کا آغاز پہلے بوسے کی تازگی تھا
ازل ربا ساعتوں کے ہم راز ہم ہوئے تھے
یہاں جو اک گونج دائرے سی بنا رہی ہے
اسی خموشی میں سنگ آواز ہم ہوئے تھے
رواں دواں انکشاف در انکشاف تھے ہم
جو مڑ کے دیکھا تو صیغۂ راز ہم ہوئے تھے
افق تھا روشن نہ مرتعش پانیوں پہ کرنیں
غلط جزیروں پہ لنگر انداز ہم ہوئے تھے
کریدتے پھر رہے ہیں اب ریت ساحلوں کی
وہی جو غوطہ زن یم راز ہم ہوئے تھے
جمود کا ایک دور گزرا تھا فکر و فن پر
طویل عرصے کے بعد پھر سازؔ ہم ہوئے تھے
غزل
بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے
عبد الاحد ساز