بجا کہ نقش کف پا پہ سر بھی رکھنا ہے
مگر بلند مقام نظر بھی رکھنا ہے
سخاوت ایسی دکھائی کہ گھر لٹا بیٹھے
نہ سوچا یہ بھی کہ کچھ اپنے گھر بھی رکھنا ہے
ہوں زخم زخم کہاں تک میں چارہ گر سے کہوں
ادھر بھی رکھنا ہے مرہم ادھر بھی رکھنا ہے
یہ جبر دیکھو کہ رہنا بھی ہے سر مقتل
ہر ایک وار بھی سہنا ہے سر بھی رکھنا ہے
رہ حیات میں تھکنا بھی ہے یقینی سا
پھر اپنے آپ کو وقف سفر بھی رکھنا ہے
الٰہی خیر کہ طوفان باد و باراں میں
ہمیں بچانا ہے خود کو بھی گھر میں رکھنا ہے
یہ کیا ستم ہے کہ صیاد ہم اسیروں کو
رہا بھی کرنا ہے بے بال و پر بھی رکھنا ہے
کسے بتائیں کہ غم اس کی بے نیازی کا
وہ غم ہے جس سے اسے بے خبر بھی رکھنا ہے
مسافرو ابھی منزل کے ہیں پڑاؤ بہت
اسی حساب سے زاد سفر بھی رکھنا ہے
یہ عذر ہے کہ انہیں نیند آنے لگتی ہے
بیان قصۂ غم مختصر بھی رکھنا ہے
وقارؔ تم سخن و آگہی سے گزرے ہو
تمہی کو پاس وقارؔ ہنر بھی رکھنا ہے

غزل
بجا کہ نقش کف پا پہ سر بھی رکھنا ہے
وقار مانوی