بجا کہ ہر کوئی اپنی ہی اہمیت چاہے
مگر وہ شخص تو ہم سے مصاحبت چاہے
گزر رہے ہیں عجب جاں کنی میں روز و شب
کہ روح قریۂ تن سے مہاجرت چاہے
کماں میں تیر چڑھا ہو تو بے اماں طائر
سلامتی کو کوئی کنج عافیت چاہے
نکل پڑے ہیں گھروں سے تو سوچنا کیسا
اب آئے رہ میں عذابوں کی سلطنت چاہے
انا کے ہاتھوں ہوا ہے شفیقؔ جو بھی ہوا
مگر یہ دل کہ ابھی تک مفاہمت چاہے

غزل
بجا کہ ہر کوئی اپنی ہی اہمیت چاہے
شفیق سلیمی