بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
شکست خواب کے اب مجھ میں حوصلے بھی نہیں
نہیں نہیں یہ خبر دشمنوں نے دی ہوگی
وہ آئے آ کے چلے بھی گئے ملے بھی نہیں
یہ کون لوگ اندھیروں کی بات کرتے ہیں
ابھی تو چاند تری یاد کے ڈھلے بھی نہیں
ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک مرے زخم کے سلے بھی نہیں
خفا اگرچہ ہمیشہ ہوئے مگر اب کے
وہ برہمی ہے کہ ہم سے انہیں گلے بھی نہیں
غزل
بجا کہ آنکھ میں نیندوں کے سلسلے بھی نہیں
پروین شاکر