بجا ہے ہم ضرورت سے زیادہ چاہتے ہیں
مگر یہ دیکھ سب کچھ بے ارادہ چاہتے ہیں
بہت دل تنگ ہیں گنجائش موجود سے ہم
رہ امکاں کشادہ سے کشادہ چاہتے ہیں
پرانی ہے نمو آثار ہے پھر بھی یہ مٹی
بدن سے اور ابھی کچھ استفادہ چاہتے ہیں
سوار آتے نہیں ہیں لوٹ کر جن گھاٹیوں سے
سفر اس کھونٹ کا اک پا پیادہ چاہتے ہیں
بہت بے زار ہیں اشرافیہ کی رہبری سے
کوئی انسان کوئی خاک زادہ چاہتے ہیں
کوئی اظہار آمادہ ہے دل کی دھڑکنوں میں
ہم اس کے واسطے اک لحن سادہ چاہتے ہیں
جو ہو مقبول اس کی بارگاہ حق ادا میں
وہ اک لمحہ ریاضؔ آدھے سے آدھا چاہتے ہیں
غزل
بجا ہے ہم ضرورت سے زیادہ چاہتے ہیں
ریاض مجید