EN हिंदी
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ | شیح شیری
baiThta uThta tha main yaron ke bich

غزل

بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ

عباس تابش

;

بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ

جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر
زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ

میرے اس کوشش میں بازو کٹ گئے
چاہتا تھا صلح تلواروں کے بیچ

وہ جو میرے گھر میں ہوتا تھا کبھی
اب وہ سناٹا ہے بازاروں کے بیچ

تم نے چھوڑا تو مجھے یہ طائراں
بھر کے لے جائیں گے منقاروں کے بیچ

تجھ کو بھی اس کا کوئی احساس ہے
تیری خاطر ٹھن گئی یاروں کے بیچ