EN हिंदी
بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں | شیح شیری
baiThe to pas hain par aankh uTha sakte nahin

غزل

بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں

جرأت قلندر بخش

;

بیٹھے تو پاس ہیں پر آنکھ اٹھا سکتے نہیں
جی لگا ہے پہ ابھی ہاتھ لگا سکتے نہیں

دور سے دیکھ وہ لب کاٹتے ہیں اپنے ہونٹھ
ہے ابھی پاس ادب ہونٹھ ہلا سکتے نہیں

تکتے ہیں اس قد و رخسار کو حسرت سے اور آہ
بھینچ کر خوب سا چھاتی سے لگا سکتے نہیں

دل تو ان پاؤں پہ لوٹے ہے مرا وقت خرام
شب کو دزدی سے بھی پر ان کو دبا سکتے نہیں

چور سے رات کھڑے رہتے ہیں اس در سے لگے
پر جو مطلوب ہے وہ جنس چرا سکتے نہیں

ریجھتے ان کی اداؤں پہ ہیں کیا کیا لیکن
مارے اندیشے کے گردن بھی ہلا سکتے نہیں

دیکھ رہتے ہیں وہ آئینۂ زانو اس کا
پر کسی شکل سے زانو کو بھڑا سکتے نہیں

قاعدے کیا ہمیں معلوم نہیں الفت کے
بے کم و کاست مگر ان کو پڑھا سکتے نہیں

چپکے تک رہتے ہیں رنگ اس کا بھبوکا سا ہم
آہ پر دل کی لگی اپنی بجھا سکتے نہیں

کیا غضب ہے کہ وہی بولے تو بولے از خود
ہم انہیں کیوں کہ بلاویں کہ بلا سکتے نہیں

گرچہ ہم خانہ ہیں جرأتؔ پہ ہمارے ایسے
بخت سوئے کہ کہیں ساتھ سلا سکتے نہیں