بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
اے روئے یار تو نے پردے فضول ڈالے
جھگڑا ہی تم چکا دو جب تیغ کھینچ لی ہے
آفت میں پھر نہ مجھ کو جان ملول ڈالے
صورت تو ایک ہی تھی دو گھر ہوئے تو کیا ہے
دیر و حرم کی بابت جھگڑے فضول ڈالے
تربت سے کوئی پوچھے نیرنگئ زمانہ
بعضوں نے خاک ڈالی بعضوں نے پھول ڈالے
کہتے ہیں جس کو جلوہ وہ بھی کہیں رکا ہے
آڑیں فضول کی ہیں پردے فضول ڈالے
صدقے دل و جگر کو مژگاں پہ کر چکا ہوں
میں نے تو اپنے ہاتھوں کانٹوں پہ پھول ڈالے
کیسے حساب جوڑوں اعمال معصیت کا
جب اس کی شان رحمت گنتی میں بھول ڈالے
مضطرؔ دلوں کے اندر رکھنے کے تھے یہ کافر
دوزخ میں کیوں خدا نے جنت کے پھول ڈالے
غزل
بیٹھے ہوئے ہیں ہم خود آنکھوں میں دھول ڈالے
مضطر خیرآبادی