EN हिंदी
بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں | شیح شیری
baiThe hain chain se kahin jaana to hai nahin

غزل

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں

رحمان فارس

;

بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں

تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہ ہو
تم نے بھی یاد آنا ہے آنا تو ہے نہیں

عہد وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں

وہ جو ہمیں عزیز ہے کیسا ہے کون ہے
کیوں پوچھتے ہو ہم نے بتانا تو ہے نہیں

دنیا ہم اہل عشق پہ کیوں پھینکتی ہے جال
ہم نے ترے فریب میں آنا تو ہے نہیں

کوشش کریں تو لوٹ ہی آئے گا ایک دن
وہ آدمی ہے گزرا زمانہ تو ہے نہیں

وہ عشق تو کرے گا مگر دیکھ بھال کے
فارسؔ وہ تیرے جیسا دوانہ تو ہے نہیں