بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
جانے والوں کا جانا یاد آ جاتا ہے
بات چیت میں جس کی روانی مثل ہوئی
ایک نام لیتے میں کچھ رک سا جاتا ہے
ہنستی بستی راہوں کا خوش باش مسافر
روزی کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے
دفتر منصب دونوں ذہن کو کھا لیتے ہیں
گھر والوں کی قسمت میں تن رہ جاتا ہے
اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے
غزل
بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
زہرا نگاہ