EN हिंदी
بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے | شیح شیری
baiThe baiThe kaisa dil ghabra jata hai

غزل

بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے

زہرا نگاہ

;

بیٹھے بیٹھے کیسا دل گھبرا جاتا ہے
جانے والوں کا جانا یاد آ جاتا ہے

بات چیت میں جس کی روانی مثل ہوئی
ایک نام لیتے میں کچھ رک سا جاتا ہے

ہنستی بستی راہوں کا خوش باش مسافر
روزی کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے

دفتر منصب دونوں ذہن کو کھا لیتے ہیں
گھر والوں کی قسمت میں تن رہ جاتا ہے

اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے
کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے