EN हिंदी
بیٹھے بیٹھے جو طبیعت مری گھبرائی ہے | شیح شیری
baiThe baiThe jo tabiat meri ghabrai hai

غزل

بیٹھے بیٹھے جو طبیعت مری گھبرائی ہے

مینو بخشی

;

بیٹھے بیٹھے جو طبیعت مری گھبرائی ہے
اور شدت سے مجھے یاد تری آئی ہے

اس سے بچھڑوں‌ گی تو زندہ نہیں رہ پاؤں گی
میری مونس مری ہم راز یہ تنہائی ہے

جستجو اب ہے مسرت کی نہ تو غم کی تلاش
بے حسی مجھ کو کہاں لے کے چلی آئی ہے

ڈوب کر ان میں نہ ابھرا ہے نہ ابھرے گا کوئی
جھیل سی آنکھوں میں پاتال سی گہرائی ہے

مجھ میں ہر سمت ضیا بار ہیں ان کی یادیں
چاندنی آج مرے دل میں اتر آئی ہے

مجھ سے وہ راہ میں کترا کے نکل جانے لگے
میں نے بھی ان سے نہ ملنے کی قسم کھائی ہے

شب افسانہ منور ہے نہ اب شام غزل
انجمن ہے نہ کہیں انجمن آرائی ہے