بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر
ٹھہرا ہوا ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر
ہم مشربی کی شرم گوارا نہ ہو سکی
خود چھوڑ دی ہے شیخ کو مے خوار دیکھ کر
کیا جانے بحر عشق میں کتنے ہوئے ہیں غرق
ساحل سے سطح آب کو ہموار دیکھ کر
ہیں آج تک نگاہ میں حالانکہ آج تک
دیکھا نہ پھر کبھی انہیں اک بار دیکھ کر
بسملؔ تم آج روتے ہو انجام عشق کو
ہم کل سمجھ گئے تھے کچھ آثار دیکھ کر
غزل
بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر
بسمل سعیدی