بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر
ٹھہرا ہوا ہوں وقت کی رفتار دیکھ کر
ہم مشربی کی شرم گوارا نہ ہو سکی
خود چھوڑ دی ہے شیخ کو مے خوار دیکھ کر
کیا دیکھتا ہے اے دل مشتاق دید اب
ہم نے تو کہہ دیا تھا خبردار دیکھ کر
آنے لگی ہے عشق کو غیرت پر اپنی شرم
شاید تری نگاہ کو بیزار دیکھ کر
کیا کیا فریب عقل دیے ان کی بزم نے
میرے جنوں کو محرم اسرار دیکھ کر
کیا جانے بحر عشق میں کتنے ہوئے ہیں غرق
ساحل سے سطح آب کو ہموار دیکھ کر
دنیا کی زندگی کا تصور ہے صبح حشر
جاگا ہوں خود کو خواب میں بیدار دیکھ کر
ہیں آج تک نگاہ میں حالانکہ آج تک
دیکھا نہ پھر کبھی انہیں اک بار دیکھ کر
دست وفا سے دامن دل کو چھڑا لیا
اہل ہوس نے عشق کو دشوار دیکھ کر
بسملؔ تم آج روتے ہو انجام عشق کو
ہم کل سمجھ گئے تھے کچھ آثار دیکھ کر
غزل
بیٹھا نہیں ہوں سایۂ دیوار دیکھ کر
بسمل سعیدی