بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا
زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا
خود اس کے پاس جاؤں نہ اس کو بلاؤں پاس
پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا
اس پر غلط ہے عشق میں الزام دشمنی
قاتل ہے میرے حجلۂ جاں میں چھپا ہوا
ہیں جسم و جاں بہم یہ مگر کس کو ہے خبر
کس کس جگہ سے دامن دل ہے سلا ہوا
ہے راہوار شوق پہ آسیب بے دلی
رکھا ہے کب سے سامنے ساغر بھرا ہوا
حاصل ہے جس کو عرشؔ فضاؤں میں اختیار
وہ دل کے ساتھ کھیل رہا ہے تو کیا ہوا
غزل
بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا
عرش صدیقی